قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق Qasim Bin Muhammad 

قاسم بن محمد

ابو محمد قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضوان اللہ علیہم اجمعین 

نام: قاسم، کنیت:ابو محمد و ابو عبد الرحمٰن، والد گرامی: محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما۔ (سیر اعلام النبلاء، للامام الذھبی، ج: ۵، ص: ۵۳،۵۴، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ولادت: آپ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آخری دورِ خلافت میں پیدا ہوئے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں۔ ۳۴ یا ۳۵ ہجری میں۔(صور من حیاۃ التابعین لدکتور عبد الرحمٰن الباشا، ص: ۳۰۱، دار الادب الاسلامی۔سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۴)

خاندانی پس منظر:

آپ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی پھوپھی ہیں اور والدہ حضرت سودہ ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد کی بیٹی ہیں۔ والد گرامی حضرت محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے والی بنے۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے وقت سے ہی فتنوں کا زور شروع ہو گیا تھا۔ چناں چہ مصر پر حملہ ہوا اور آپ کے والد شہید ہو گئے۔ آپ کو اور آپ کی بہن کو آپ کے چچا حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے مدینہ واپس لایا۔ پھر آپ اپنی پھوپھی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں رہے۔ ان سے روایت حدیث بھی کی۔ (تلخیصاً، صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۰۰۔۳۰۲)

تعلیم و تربیت:

اپنی پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی خاص استفادہ کیا۔ چناں چہ واقدی نے عبد اللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انھوں نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے، وہ اپنے والد (قاسم بن محمد) سے روایت کرتے ہیں، فرمایا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دورِ خلافت میں فتویٰ میں مشغول رہیں یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ فرمایا: میں ان کا ملازم تھا، اور میں سمندر (بحرِ علم) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا، اور حضرت ابو ہریرہ اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس زیادہ بیٹھا ۔ تو وہاں یعنی حضرت ابن عمر کے پاس تقویٰ تھا، بے پناہ علم تھا اور اس سے توقف تھا جس کے بارے میں مکمل جانکاری نہ ہو۔ (تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۱، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تربیت و شفقت:

اسی طرح آپ نے مصر سے لوٹنے کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تربیت و شفقت کو بیان کیا ہے کہ ہم نے پھوپھی جان کے اندر ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت دونوں بدرجۂ اتم پائی تھی۔ پھر آگے فرمایا:
و کانت لا تفتأ تحضّنا علی الخیر، و تُمرِّسنا بفعلہ، و تنھانا عن الشر، و تحملنا علیٰ ترکہ، و قد دَأَبت علیٰ تلقیننا ما نطیقہ من کتاب اللہ، و تروِیتنا ما نعقلہ من حدیث رسول اللہﷺ۔ (صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۰۲)
وہ ہمیں بھلائی پر ابھارتی رہتیں اور اسے بجا لانے کی عادت ڈالتیں، برائی سے روکتیں اور اسے چھوڑے رہنے کی تاکید کرتیں۔ اور ان کی عادت سی ہو گئی تھی کہ ہم جتنا سیکھ سکتے تھے، کتاب اللہ سکھاتیں اور رسول اللہﷺ کے احادیث کا جام پلاتیں۔

قاسم بن محمد کی افضلیت:

آپ بزرگ تابعی ہیں ۔ آپ کو اہل علم کے درمیان بڑا مقام حاصل تھا۔ چناں چہ یحیٰ بن سعید نے فرمایا:
ما أدرکنا بالمدینة أحداً نفضّلہ علی القاسم بن محمد۔ (طبقات الفقہاء۔ ص: ۵۹، دار الرائد العربی، بیروت، تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
مدینہ میں ہم نے کسی ایسے کو نہیں پایا جسے قاسم بن محمد پر فضیلت دیں۔
امام بخاری نے فرمایا: و کان أفضل أھل زمانہ۔ ( صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الطیب بعد رمی الجمار۔۔۔: ۱۷۵۴)
اپنے معاصرین میں افضل تھے۔
مصعب زبیری نے فرمایا: القاسم من خیار التابعین۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷)
قاسم خیارِ تابعین سے تھے۔
ابن حبّان نے بیان کیا: کان من سادات التابعین من أفضل أھل زمانہ علماً و أدباً و فقھاً۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰)
وہ سادات تابعین سے تھے، اپنے معاصرین میں علم و ادب اور فقہ میں افضل تھے۔
اور اس بات سے مزید آپ کی بلندیِ شان ظاہر ہوتی ہے جو ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:
لو کان إلیّ من ھذا الأمر شیئ ما عصبته إلاّ بالقاسم بن محمد۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷، تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰)
اگر مجھے اس معاملے میں کچھ اختیار ہوتا تو میں قاسم بن محمد ہی کو خلیفہ بناتا۔

علمِ حدیث:

آپ نے درج ذیل حضرات سے احادیث روایت کیں:
اپنے والد محمد، پھوپھی عائشہ، عبادلہ (عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن زبیر)، عبد اللہ بن جعفر، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن خبّاب، معاویہ، رافع بن خدیج، صالح بن خوّات بن جبیر، اسلم مولیٰ عمر، عبد الرحمٰن بن یزید بن جاریہ و مجمّع بن یزید بن جاریہ، فاطمہ بنت قیس، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۱۹)
ان میں سے اپنی پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے خاص استفادہ کیا جو علم حدیث میں اپنی مثال آپ تھیں۔ خالد بن نزّار نے ابن عیینہ سے روایت کی، فرمایا: أعلم الناس بحدیث عائشة ثلاثة: القاسم و عروۃ و عَمرۃ۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۴، تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰)
حدیثِ عائشہ کے زیادہ جانکار تین لوگ ہیں: قاسم، عُروہ اور عَمرہ۔

قاسم بن محمد کے تلامذہ:

آپ سے روایت حدیث کرنے والے حضرات کی فہرست بھی طویل ہے۔ چناں چہ خود آپ کے بیٹے عبد الرحمٰن بن قاسم، امام شعبی، نافع عمری، سالم بن عبد اللہ، ابو بکر بن حزم، امام زہری، ابن ابی مُلیکہ، سعد بن ابراہیم، حُمید الطویل، ایوب، ربیعہ الرأی، عبید اللہ بن عمر، ابن عون، ربیعہ بن عطا، ثابت بن عبید، جعفر بن محمد، یحیٰ بن سعید انصاری اور ان کے بھائی سعد بن سعید، شیبہ بن نصاح، طلحہ بن عبد الملک، عاصم بن عبید اللہ، ابو الزناد، عبید اللہ بن ابی الزناد القدّاح،

عمر بن عبد اللہ بن عروۃ، عیسیٰ بن میمون الواسطی، موسیٰ بن سرجِس، أفلح بن حمید، حنظلہ ابن ابی سفیان، اسامہ بن زید اللیثی، عبد اللہ بن علاء بن زبر، صالح بن کیسان، أیمن بن نابل، عبّاد بن منصور اور ان کے علاوہ بڑے بڑے محدثین نے آپ سے احادیث روایت کیں۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۱۹، سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۴)
ابن مدینی نے کہا: لہ مئتا حدیث۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۴، تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۰)
ان سے دو سو احادیث مروی ہیں۔
عبد الرحمٰن بن ابی الزناد نے اپنے والد سے روایت کی، فرمایا: ما رأیت أحداً أعلم بالسنۃ من القاسم بن محمد، و ما کان یعدّ الرجل رجلاً حتّی یعرف السنۃ، و ما رأیت أحداً ذھناً من القاسم۔(سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۴)
قاسم بن محمد سے زیادہ کسی سنت جاننے والے کو نہیں دیکھا، اور آدمی کو مرد شمار نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ سنت کا جانکار ہو جاتا، اور قاسم سے زیادہ ذہین کسی کو نہیں دیکھا۔

روایتِ حدیث میں احتیاط:

صحابہ سے اتنے قریب رہنے کے باوجود آپ روایت حدیث میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ روایت بالمعنی نہیں کرتے۔ چناں چہ ابن عون نے کہا: کان القاسم و إبن سیرین و رجاء بن حیوۃ یحدثون الحدیث علیٰ حروفہ۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰)
قاسم، ابن سیرین اور رجاء بن حیوۃ حدیث بالفاظہ بیان کرتے تھے۔
عبد اللہ بن علاء سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نے قاسم سے عرض کی کہ مجھے احادیث املا کرا دیں تو فرمایا: حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں احادیث کی کثرت ہو گئی تو آپ نے لوگوں کو قسم دے کر انھیں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ پھر جب وہ (ان احادیث کو لے کر) حاضر ہوئے، انھیں جلانے کا حکم صادر فرمایا۔عبد اللہ بن علاء کہتے ہیں کہ پھر قاسم نے مجھے اس دن حدیث لکھنے سے منع کر دیا۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۷، مکتبۃ الخانجی، قاہرہ)

مجلس درس:

جب اس صدیقی نوجوان کے علم و معرفت کی تمام جہتیں مکمل ہو گئیں اور لوگ حصولِ علم کی خاطر شوق و رغبت سے ان کے پاس آنے لگے تو اس نے ان پر علم کے دریا بہا دیے۔
وہ مسجد نبوی میں اپنے مقررہ وقت پر ہر صبح آتے، دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرتے۔ پھر منبرِ رسولﷺ اور روضۂ رسولﷺ کے درمیان باب عمر کے سامنے اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بیٹھ جاتے تو ہر طرف سے طالب علم ان کے پاس جمع ہونے لگتے اور ان کے شیریں و صاف چشمۂ علم سے اپنے پیاسے دلوں کو خوب سیراب کرتے۔
کوئی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ قاسم بن محمد اور ان کے خالہ زاد سالم بن عبد اللہ بن عمر مدینہ کے قابل اعتماد امام اور ایسے رہنما و سردار بن گئےکہ لوگ ان کی بات سنتے اور مانتے تھے۔
ان کے پاس کوئی گورنری تھی نہ حکومت، مگر لوگوں نے ان کو اپنا سردار و قائد بنا لیا تھا، کیوں کہ انھوں نے اپنے آپ کو ورع و تقویٰ سے آراستہ کر رکھا تھا۔ دل علم و فقہ سے معمور کر رکھے تھے اور لوگوں کے ہاں پائے جانے والے مال و متاع سے بے نیازی اور اللہ کے حضور جو کچھ ہے اس میں رغبت پیدا کر رکھی تھی۔ (صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۰۶،۳۰۷)

لوگ آپ سے سوالات کرتے:

عبد الرحمٰن بن ابی الموال کا بیان ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد کو دیکھا صبح سویرے مسجد آتے، دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے درمیان بیٹھ جاتے اور لوگ آپ سے سوالات کرتے۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۸)
آپ نے اس عظیم کام کے لیے مسجد نبوی جیسی مقدس جگہ کا انتخاب فرمایا تھا۔ منبر نبوی اور روضۂ نبوی کے درمیان حلقۂ درس قائم کیا۔ وہ نماز عشا کے بعد اپنے رُفقا و تلامذہ سے حدیث و فقہ بیان کرتے۔ اس پُرنور مقام پر لوگ آپ سے احادیث سماعت کرتے۔ اپنے سوالات عرض کرتے اور نورِ علم سے فیضیاب ہوتے۔
محمد بن عمر نے کہا: قاسم اور سالم بن عبد اللہ کی مجلس مسجد نبویﷺ میں ایک تھی۔ پھر اس میں ان دونوں کے بعد عبد الرحمٰن بن قاسم اور عبید اللہ بن عمر بیٹھے۔ پھر اس میں ان دونوں کے بعد امام مالک بیٹھے۔ باب عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے قبر نبوی اور منبر نبوی کے درمیان۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۷)

قاسم بن محمد کا فقہ و اجتہاد:

خاندان صدیقی کا یہ چشم و چراغ جب جوانی کو پہنچاتو کتاب اللہ حفظ کر چکا تھا۔ اور اپنی پھوپھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث رسولﷺ بھی اخذ کر چکا تھا۔ پھر اس نے حرم نبوی کا رخ کیا اور ان علمی حلقوں کا ہوکر رہ گیا جو مسجد نبوی کے ہر رکن میں اس طرح بکھرے ہوتے تھے جیسے آسمان پر ستارے بکھرے چمک رہے ہوں۔
انھوں نے ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن زبیر، عبد اللہ بن جعفر، عبد اللہ بن خبّاب، رافع بن خدیج اور عمر بن خطّاب کے غلام اسلم وغیرہم رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کی ۔
حتّی غدا إماماً ومجتھداً و أصبح من أعلم أھل زمانہ بالسنة، و کان الرجل لا یعدّ رجلاًعندھم حتّی یُتقن السنة۔ (صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۰۶)
یہاں تک کہ وہ امام و مجتہد اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالمِ سنت بن گئے۔ ان دنوں علمی میدان میں کسی کو مرد نہیں کہا جاتا جب تک وہ سنت میں رسوخ حاصل نہ کر لیتا۔
صاحب تذکرۃ الحفّاظ نے بیان کیا: قتل أبوہ فرُبّی القاسم فی حجر عمّتہ فتفقّہ بھا۔ (تذکرۃ الحفّاظ، ج: ۱، ص:۹۷)
حضرت قاسم کے والد شہید ہو گئے تو آپ کی تربیت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں ہوئی تو ان سے فقہ حاصل کیا۔

خیارِ تابعین اور فقہاے تابعین سے تھے:

وفیات الاعیان میں ہے: کان من سادات التابعین و أحد الفقھاء السبعۃ بالمدینۃ۔ (وفیات الاعیان لأبناء أبناء الزمان، ج: ۴، ص: ۵۹، دار صادر، بیروت)
سادات تابعین اور مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔
اور عجلی نے فرمایا: کان من خیار التابعین و فقھاءھم۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷)
خیارِ تابعین اور فقہاے تابعین سے تھے۔
اور فرمایا: مدنی تابعي، ثقة نزہ رجل صالح۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷)
مدنی تابعی تھے، ثقہ ، پارسا اور نیک شخص تھے۔
ابو زیاد نے کہا: مارأیت فقیھاً أعلم من القاسم، و ما رأیت أحداً أعلم بالسنّۃ منہ۔(تذکرۃ الحفّاظ، ج: ۱، ص: ۹۷)
میں نے قاسم سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا، اور نہ ان سے بڑھ کر کسی کو سنت کا عالم پایا۔
اور امام مالک نے فرمایا: کان القاسم من فقھاء ھذہ الأمة۔ (طبقات الفقہاء۔ ص: ۵۹)
قاسم اس امت کے فقہامیں سے تھے۔
ابن سعد نے واقدی سے بیان کیا: کان ثقة رفیعا عالما إماما فقیھا ورعا کثیر الحدیث۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰، تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۰)
وہ (قاسم بن محمد) ثقہ، بلند مرتبہ، عالم، امام، فقیہ، متورّع اور کثیر الحدیث تھے۔

فتویٰ میں احتیاط:

آپ زیادہ خاموش رہتے۔ فتویٰ اور حکم لگانے میں نہایت احتیاط سے کام لیتے۔ اور دوسروں کو بھی اسی کا درس دیتے۔ چناں چہ امام مالک نےفرمایا: کان قلیل الحدیث و الفتیا۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰)
وہ (قاسم بن محمد) کم بولنے والے اور کم فتویٰ دینے والے تھے۔’’ یہی الفاظ یعقوب بن سفیان سے بھی منقول ہیں۔
ابو الزناد نے اپنے والد سے روایت کی۔ فرمایا: ما کان القاسم یجیب إلاّ فی الشیئ الظاھر۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۶)
قاسم صرف ظاہر میں فتویٰ دیتے تھے۔
عمران بن عبد اللہ کا بیان ہے۔ کہتے ہیں کہ قاسم نے کچھ لوگوں سے فرمایا جو تقدیر کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ اس میں پڑنے سے بچو جس سے اللہ نے روکا ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۷)

قاسم بن محمد کی علمی دیانت:

ہر مقام پر آپ کی علمی جلالت نمایاں نظر آتی ہے۔ اس تعلّق سے آپ کے اقوال و افعال اُس دور کے فقہا و مجتہدین کے لیے بھی رہ نما تھے اور آج کے علما و مفتیان عظام کو بالخصوص ان سے سبق حاصل کر لینا چاہیے۔
ایک مرتبہ منیٰ میں انھیں دیکھا گیا کہ مختلف شہروں سے آئے ہوئے حجاج کرام آپ کو گھیرے ہوئے کھڑے ہیں۔ اور آپ سے طرح طرح کے سوالات کر رہے ہیں۔ آپ جو بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ بتا دیتے ہیں اور جس کے بارے میں مکمل علم نہیں ہے، کہتے ہیں:
لا أدری (میں نہیں جانتا) لا أعلم (مجھے علم نہیں) لا أدری۔ لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: جو کچھ تم پوچھ رہے ہو، ساری باتیں ہم نہیں جانتے۔ اور اگر جانتے تو نہیں چھپاتے۔ کیوں کہ کسی بات کو جانتے ہوئے ہمارے لیے چھپانا جائز نہیں۔ (صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۱۱)

قاسم بن محمد فرماتے ہیں:

یحیٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے قاسم بن محمد کو فرماتے سنا:
لأن یعیش الرجل جاھلاً بعد أن یعرف حقّ اللہ علیہ خیرلہ من أن یقول ما لا یعلم۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷، تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۳)
آدمی کا اپنے اوپر اللہ کا حق جان لینے کے بعد جاہل رہ کر زندگی گزارنا بہتر ہے۔ اس بات سے کہ وہ ایسی بات کہے جو وہ نہیں جانتا ہے۔
ہشام بن عمّار نے امام مالک سے روایت کی۔ فرمایا کہ قاسم کے پاس امراے مدینہ میں سے ایک شخص آیا اور کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: إنّ من إکرام المرء نفسہ أن لا یقول إلاّ ما أحاط بہ علمہ۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۷، تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۴)
انسان کی عزت نفس سے ہے کہ وہ کوئی بات نہ کہے۔ مگر جس کو اس کا علم محیط ہو (جسے وہ خوب جانتا ہو)۔

تواضع و انکساری:

آپ کے تواضع کا عالم یہ تھا کہ اگر کسی فعل سے علوِ مرتبت ظاہر ہونے کا خوف ہوتا تو اس سے بچنے کی کوشش کرتے۔ کم بولتے، کم فتویٰ دیتے، کبھی کوئی بڑا مسئلہ پوچھا جاتا تو کہتے: کیا ضروری تھا کہ یہ بات مجھ سے ہی پوچھو۔
ایک مرتبہ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ آپ زیادہ بڑے عالم ہیں یا سالم بن عبداللہ؟ توآپ نے کچھ جواب نہ دیا اور اس کے جواب سے بچنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے دوبارہ سوال کیا تو آپ نے سبحان اللہ کہا۔ اس نے پھر تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا: وہ سالم بیٹھے ہیں ان سے پوچھ لو۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں: قاسم بن محمد نے یہ بتانا ناپسند کیا کہ میں سالم بن عبد اللہ سے بڑا عالم ہوں کہ اس میں تکبّر کا اظہار ہوتا۔ اور انھوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ سالم بن عبد اللہ مجھ سے بڑے عالم ہیں کہ جھوٹ ہوتا۔ قاسم بن محمد دونوں میں زیادہ علم والے تھے۔ (تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۲،۴۳۳، سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۵۶، صور من حیاۃ التابعین، ص: ۳۱۰،۳۱۱)

قاسم بن محمد کا تقویٰ:

آپ بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ دنیا سے بھی بے رغبتی تھی اور مالِ دنیا سے بھی بے نیازی۔ معمولی کپڑوں میں رہتے جو صحابہ کا طریقہ بھی تھا اور بعد والوں کے لیے نمونہ بھی۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ما رأیت أبا بکر ولدَ ولداً أشبہ من ھذا الفتٰی۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰، تہذیب الکمال، ج: ۲۳، ص: ۴۳۰)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں اس جوان سے بڑھ کر ان سے مشابہت رکھنے والا کسی کو نہ پایا۔
سلیمان بن قتّہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن عبید اللہ نے مجھے ایک ہزار دینار دے کر عبد اللہ بن عمر اور قاسم بن محمد کے پاس بھیجا۔ میں ابن عمر کے پاس گیا تو انھوں نے لے لیا اور پھر قاسم بن محمد کے پاس گیا تو انھوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۸۸، ملخّصاً)

زندہ مردے سے بڑھ کر نئے ( کپڑے) کا محتاج ہے:

سلیمان بن عبد الرحمٰن کا بیان ہے۔ فرمایا: قاسم بن محمد کی وفات مقام قُدید میں ہوئی تو انھوں (وفات سے پہلے) نے فرمایا: میری تکفین میرے انھی کپڑوں میں کرنا جن میں میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ قمیص، ازار اور ردا (چادر) تو آپ کے بیٹے نے عرض کی: ابّا جان! کیا ہم دو کپڑوں کا اضافہ نہ کر دیں؟ فرمایا: اے میرے بیٹے! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی طرح تین کپڑوں میں دفنائے گئے۔ اور زندہ مردے سے بڑھ کر نئے ( کپڑے) کا محتاج ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج: ۷، ص: ۱۹۲، وفیات الاعیان، ج: ۴، ص: ۶۰)
اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ زندگی بھر جس طرح آپ کی زندگی پُر معنی۔ اور خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشابہ تھی۔ دمِ آخر بھی اس کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔

قاسم بن محمد کی وفات:

 

۱۰۱ھ یا ۱۰۲ھ، یحیٰ بن معین کے مطابق ۱۰۸ھ۔ واقدی کے مطابق ۱۱۲ھ ۷۰ یا ۷۲ سال کی عمر میں مقام قُدَیْد میں ہوئی۔ (طبقات الفقہاء، ص: ۵۹، تہذیب التہذیب، ج: ۳، ص: ۴۲۰، وفیات الاعیان، ج: ۴، ص: ۶۰)

محمد دلشاد احمد مصباحی

حافظ ملت کی مختصر سوانح Hafize Millat

رسول اکرمﷺ کا تواضع 

 

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *